کبھی نہ تھا

Poet: رشید حسرت By: رشید حسرت, Quetta

بِچھڑا وہ گویا زِیست میں آیا کبھی نہ تھا
اُس نے مِرے مِزاج کو سمجھا کبھی نہ تھا

لہجے میں اُس کے تُرشی بھی ایسی کبھی نہ تھی
دِل اِس بُری طرح مِرا ٹُوٹا کبھی نہ تھا

گو اِضطراب کی تو نہ تھی وجہ ظاہری
دِل کو مگر قرار کبھی تھا، کبھی نہ تھا

مانا کہ زِندگانی میں آئے، گئے ہیں لوگ
کوئی بھی اُس گلاب نُما سا کبھی نہ تھا

آیا بھی میرے شہر، مِلے بِن بھی جا چُکا
جیسا ہُؤا ہوں آج، میں تنہا کبھی نہ تھا

گُھٹنے ہی اُس نے ٹیک دِیئے، ہار مان لی
لوگو! وہ ایک شخص جو ہارا کبھی نہ تھا

راہِ وفا میں دشت بھی تھے، وحشتیں بھی تِھیں
گر کُچھ نہ تھا تو زُلف کا سایہ کبھی نہ تھا

جھیلا ہے درد ہنستے ہُوئے، کھیلتے ہُوئے
کیا شخص تھا جو شِکوہ سراپا کبھی نہ تھا

راتیں کٹی ہیں، دِن بھی گُزارے گئے رشِیدؔ
دیتا جو دُکھ میں ساتھ سہارا کبھی نہ تھا

Rate it:
Views: 280
15 Oct, 2022
More Sad Poetry
ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے یہاں لیکن
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
MAZHAR IQBAL GONDAL