بن ترے کب تلک جیوں گا میں
سرد آئیں ہی کیا بھروں گا میں
شربتِ دیدِ آرزو ہوتے
خُون کے گھونٹ ہی پیوں گا میں
تُو کبھی کُھل کے سامنے تو آ
چشمِ خلقت خرید لوں گا میں
آتشِ عشق کچھ تو چین آئے
ہجر میں کب تلک جلوں گا میں
ہیں چکا چوند خواب محلوں سے
جھونپڑے میں بھلا رہوں گا میں
ہے جہاں تاب فن سخن اپنا
جی میں آتا ہے کب ڈھلوں گا میں
تجھ سے پل بھر جو دھیان ہٹ جائے
پھر بچائے نہیں بچوں گا میں
زندگی میں نے تجھ پہ واری ہے
اپنی خاطر مگر مروں گا میں
گر کوئی تیرے نعل پا کے عوض
عیشِ فردوس دے نہ لُوں گا میں
گر وہ ساقی نہیں اے میخانے
ایک اک چیز توڑ دُوں گا میں
وہ سحر چل گیا ہے نظروں کا
نہ جیوں گا نہ مر سکوں گا میں