کب سے دلِ اداس کو بہلا رہا ہوں میں
اب تو شبِ فراق سے گھبرا رہا ہوں میں
رکھ کر تصورات کی دنیا میں تیرے نقش
کب سے امیدِ وصل کو بھڑکا رہا ہوں میں
فرقت میں تیری بن کے سراپا میں شعلہ زن
لمحہ بہ لمحہ آگ سا جلتا رہا ہوں میں
اک تو ہے میری چاہ سے، حالت سے بے خبر
دیکھو تو کس طرح سے مچلتا رہا ہوں میں
تم ہی میرے جمود کی حالت کا کچھ کرو
چلمن ذرا اٹھائو کہ پتھرا رہا ہوں میں
ملنے کے بعد مجھ سے کرو یوں نہ بے رخی
تم بھی تو مسکرائو، ہنسے جا رہا ہوں میں
کچھ اپنی ذات کی مجھے تحریر پڑھنے دو
کچھ مجھ کو پڑھتے جائو کہ کیسا رہا ہوں میں