کرتے ہیں گفتگو سحر اُٹھ کر صبا سے ہم
لڑنے لگے ہیں ہجر میں اُس کے، ہوا سے ہم
ہوتا نہ دل کا تا یہ سرانجام عشق میں
لگتے ہی جب کے مرگئے ہوتے بَلا سے ہم
چھوٹا نہ اُس کا دیکھنا ہم سے کسو طرح
پایانِ کار مارے گئے اس ادا سے ہم
داغوں ہی سے بھری رہی چھاتی تمام عمر
یہ پھول، گُل چُنا کیے باغِ وفا سے ہم
غافل یہ اپنی دیدہ ورائی سے ہم کو جان
سب دیکھتے ہیں پر نہیں کہتے حیا سے ہم
دو چار دن تو اور بھی آ، تو کراہتا
اب ہوچکے ہیں روز کی تیری جفا سے ہم
آئینے کی مثال پس از صد شکست میر
کھینچا بغل میں یار کو دستِ دعا سے ہم