کر کے ہمیں وہ رسوا سر بازار گئے
زعم تھا اپنی محبت پرسو ہم ہار گئے
تنہا ہیں دشت سفر میں تو کس سے کہیں
غیروں سے گلہ کیسا ہمیں تو اپنے مار گئے
اف یہ عالم تنہائی اور انکا خود غرض رویہ
لے کر اپنے دامن کو ہم تار تار گئے
عجب تقسیم زمانے نے محبت میں اپنائی ہے
کسی کو ملے پھول کسی کے حصے میں خار گئے
دی تھی گواہی جنکی معصومیت کی زمانے کو
بڑی سادگی سے احسن وہ ہم کو چار گئے