کسی بھی شخص کے شانے سے سر نہیں نکلا
تمام شہر میں کوئی نڈر نہیں نکلا
عجیب بات ہے جس کو لہو سے سینچا تھا
اسی شجر پہ ہمارے ثمر نہیں نکلا
پھنسا ہوا ہے محبت کا تیر سینے میں
کیے ہزار جتن ہم نے پر نہیں نکلا
اگرچہ بے سرو سامان تھے سبھی لیکن
کوئی ہماری طرح بے ثمر نہیں نکلا
وفائیں جس کے درو بام سے ٹپکتی تھیں
ہمارے دل سے وہ گاوں کا گھر نہیں نکلا
صفی فصیل تھی چاروں طرف اندھیرے کی
کسی بھی سمت اجالے کا در نہیں نکلا