کسی راہگذر کی آنکھ سے اشارہ بھی کوئی ہوتا
تمہارے ابلاغ تھے کہ ہمارا بھی کوئی ہوتا
سبھی پیچدار راہوں نے دشوار کیا ہے بہت
اس سے پہلے الجھنوں کا اندازہ بھی کوئی ہوتا
یہ مدہوشی بھی تو نافرمان ہوکے گذری
کاش ان موجوں کے لئے کنارہ بھی کوئی ہوتا
کئی دنوں سے وسعتیں سنسان سی لگتی ہیں
ان آزاد گلیوں کا کوئی بنجارہ بھی کوئی ہوتا
میری مجھ میں تو عجیب برتری ہے لیکن
اُن بلندیوں کا کہیں شمارہ بھی کوئی ہوتا
بھری دنیا میں تنہا کٹ گئی رعنایاں
ملن کی حق وراثت سے تمہارا بھی کوئی ہوتا