کسی کے درد سے جب بات ہی نہیں ہوتی
میں کیا کروں کہ مری رات ہی نہیں ہوتی
ابھی وہ گھات میں اندازِ طِفل رکھتا ہے
اُسے تو پھر بھی کبھی مات ہی نہیں ہوتی
اُسی کا نام بھی رکھا گیا ہے بزمِ وفا
جہاں وفا کی کوئی بات ہی نہیں ہوتی
اُسے بھی چاند سُناتا نہیں ہے حال مِرا
مِری ستاروں سے اب بات ہی نہیں ہوتی
وہ ذات پات کا قیدی، اُسے یہ کیسے کہوں
خدا کے بعد کوئی ذات ہی نہیں ہوتی
وہ کہہ تو جاتا ہے، ’’لوٹوں گا زینؔ، رات سمے‘‘
پھر اُس کی صبح تلک رات ہی نہیں ہوتی