کسی کے ساتھ چاہت ہوگئی تو کیا کرو گے تم
جفا سہنے کی عادت ہوگئی تو کیا کرو گے تم
ابھی تنہا، افق کے پار ساری رات تکتے ہو
ستاروں سے شکایت ہوگئی تو کیا کرو گے تم
ابھی چاہت گنوا دینے کی ضد تم کو ہے شدت سے
اگر پانے کی حسرت ہوگئی تو کیا کرو گے تم
ابھی تو ساحلوں پہ گھومنے سے جی بہلتا ہے
سمندر سے بھی وحشت ہوگئی تو کیا کرو گے تم
ابھی خُوشیوں کے پَر باندھے ہوئے محوِ سفر ہو تم
جو پیدا غم میں لذت ہو گئی تو کیا کرو گے