کیسی یہ سنجیدگی کیسا ہے غم
کس لیے آنکھیں ہیں میری آج نم
ہر ہنسی کے بعد اک پایا ہے غم
اس لیے تو مسکراتا ہوں مین کم
یاخدا ! اب زندگی کی خیر ہو
الجھنیں لاکھوں ہیں اپنا ایک دم
جانے کیا سوچا کہ واپس آگیا
رہ گیا جب اس کا در بس دو قدم
تم نہ آئے نہ ہوا جشن بہار
ہر کلی ہر پھول کی آنکھیں ہیں نم
سایہ بن کے ساتھ رہتے ہیں مرے
کچھ ترے غم اور کچھ دنیا کے غم
ڈر ہے آنکھوں میں رکی سنجیدگی
کھول نہ دے ضبط الفت کا بھرم
پھول کو بوسہ دیا ،،تو چوم لوں
مجھ پہ بھی ہو جائے جو نظر کرم
آپ کی تسکین یوں ہو جائے گی
جتنا دل چاہے کریں ظلم و ستم