کس موڑ زیست پہ کھڑے ہو انتظار کس کا ہے
اس راہ نہ چل میری جاں یہ منزل دشوار ہے
وقت کے تپتے صحرا میں کہں کھو نہ جاؤ تم
تیرے رستے سایہ بھی نہیں نہ دیوار ہے
بادباں نے رخ موڑا ہے کس طرف سفینے کا تیرے
راہ میں ساحل بھی نہیں ڈوب جانے کا آثار ہے
میکدہ میں آ ساقیا مجھے پھر جام پلا ساقیا
آج چاندنی رات ہے ہر کوئی طلب گار ہے
خدا کرے جگمگائے تیرا آفتاب قسمت یونہی
ہاتھ اٹھا کے دعا مانگتے رہے پھر بھی اصرار ہے
ثبوت کیا دوں اپنی محبت کا اپنی وفا کا
ابتدا بھی انتہا بھی یہی میرا پیار ہے
محبت کرنے والے مرتے رہیں گے صدا یونہی
اک شعلہ تھا بھڑک کر بجھ گیا ہمیں اعتبار ہے
اپنی خطا پہ شرمسار ہوں تو مجھے شرمسار نہ کر
میں نے دیکھی ہے ہر آنکھ پر نم مگر خطاوار ہے
اشک رواں میں بارش کی دعا مانگتے ہو اسلام
اجڑ جائے گی بستی شکستہ تیرا در و دیوار ہے