کس کام کو آئے تھے کس کام میں لگے دن بھول میں گزارا ڈر شام میں لگے فَِردوس کی طَلب بھی اور نیند بھی ہُو پُوری بُھولا ہُوں کہ سقر بھی اِسی گام میں لِگے جُرموں کو میرے دیکھ کر اِبلیس بھی ہَنسے کہتا ہے عشرت وارثی بھی دام میں لگے