کس کیفیت میں ڈوب کے لکھا گیا فسانہ
کہ بن گیا ہے دل پذیر و خوش نوا ترانہ
دل گداز، دل فریب، دل نشیں ہوا بہت
گرچہ اداسیوں میں ڈوبا ہے یہ افسانہ
لفظوں کے موتیوں نے غم کو ہنسا دیا ہے
خوشبو سے مہکنے لگا ویران آشیانہ
ہر سوز کو وہ ساز بخشا ہے تخیل نے
جس نے بھی سنا ہے وہ ہو گیا دیوانہ
وحشت کو نغمگی میں کچھ ایسے پرویا ہے
آہنگ وہ اٹھی ہے کہ دل ہو چلا مستانہ
دل کی ترنگ اس طرح آہنگ میں ڈھلی ہے
شمع کی لو میں جس طرح گم ہوتا ہے پروانہ
لفظوں کے تار عظمٰی ہم نے کبھی نہ چھیڑے
جب تک ہمارے دل نے ہم سے بھی کچھ کہا نہ
کس کیفیت میں ڈوب کے لکھا گیا فسانہ
کہ بن گیا ہے دل پذیر و خوش نوا ترانہ