کشتی ہے جو دریا میں تو پتوار کہاں ہیں
جینے کے یہاں آج بھی آثار کہاں ہیں
تم حلقہء ہجرت سے نکلتے ہی نہیں ہو
ملنے کے مرے راستے دشوار کہاں ہیں
نفرت کی تمازت سے نہ وہ ہم کو جلائے
ہم اہلِ محبت ہیں تو بیکار کہاں ہیں
کب دیکھنے آئیں گے مری آنکھ کا کاجل
برساتِ محبت کے طلبگار کہاں ہیں
بانٹا ہے شب و روز یہاں پیار خزانہ
اس شہر ستم گر میں بھی لاچار کہاں ہیں
جھلسی ہے کئی بار یہاں آتشِ غم میں
وشمہ ترے جینے کے آثار کہاں ہیں