کلام امیر
Poet: maqsood hasni By: maqsood hasni, kasurاس کی نگاہ التفات سے
پگھل پتھر گیے انا کے
بولا تو قبائے احساس جل گئی
۔.................
میں نے رسوا کیا ہے تم کو!
میں تو چپ کے حصار میں ہوں
یہ شرارت آنکھوں کی ہے
.................
اسیری زلف آفت جان سہی
مےکدے سے آئی صدا
دین دیتا نہیں اس سے نجات
.................
درد کے سمندر میں
تلاش لیتے ہیں لوگ
تنکے نجات کے
.................
کشکول گدائی تھامنے سے پہلے
وہ زندگی کی باہوں میں تھا
اب چلتا پھرتا ویرانہ ہے
1-6-1995
ماہنامہ تجدید نو لاہور
جولائی 1995
لوگ تعوذ کہتے ہیں اسے دیکھ کر
سکے چلتے نہیں بخل کے
حسن کے بازار میں
.............
ترک الفت میں بھی اک سلیقہ تھا
دوڑے آئے غیر بھی
ان کی ہر صدا پر
.............
نظر ملنے کے لمحے چھپا رکھے ہیں
احساس کی بوتل میں
سزا کے لیے تو گواہی چایے
............
احساس حسن ہوتا گلاب کو
یوں وہ بےحرمت نہ ہوتا
امیر شہر کےقدموں میں
..............
صدائیں اب کون سنے گا
ترے حسن کے خمیر کی ریا نے
ڈس لیا ہے اہل وفا کو
............
دل کے پار دیوار سی بنی ہے
یہ پتھر تو وہی ہیں
آئے تھے جو محبت کے جواب میں
...........
قیس کا دعوی عشق
اہل نظر کیوں مان لیں
عشق میں اس کے کب اعتدال تھا
.........
ذرا وحشت دل تو دیکھو
جب جس نے بہلایا
ساتھ ہو لیا
............
کھو کر جوانی کے خدوخال میں
بھولا نہیں میں
باپ کی آنکھ میں لکھے خط کو
..........
تم تو مجرم وفا ہو
سمندر کی تہوں میں بھی
کھوج لیں گے تم کو کھوجنے والے
27-9-1995
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے






