کلام کرتی نہیں بولتی بھی جاتی ہے
Poet: By: TARIQ BALOCH, HUB CHOWKIکلام کرتی نہیں بولتی بھی جاتی ہے
 تری نظر کو یہ کیسی زبان آتی ہے
 
 کبھی کبھی مجھے پہچانتی نہیں وہ آنکھ
 کبھی چراغ سے چاروں طرف جلاتی ہے
 
 عجب تضاد میں پلتی ہے ترے وصل کی آس
 کہ ایک آگ بجھاتی ہے اک لگاتی ہے
 
 وہ دیکھتی ہے مجھے ایسی مست نظروں سے
 مرے لہُو میں کوئی آگ سرسراتی ہے
 
 یہ چار سو کا اندھیرا سمٹنے لگتا ہے
 کچھ اس طرح تری آواز جگماتی ہے
 
 یہ کوئی اور نہیں آگ ہے یہ اندر کی
 بدن کی رات میں جو روشنی بچھاتی ہے
 
 میں اس کو دیکھتا رہتا ہوں رات ڈھلنے تک
 جو چاندنی تری گلیوں سے ہو کر آتی ہے
 
 یہ روشنی بھی عطا ہے تری محبت کی
 جو میری روح کے منظر مجھے دکھاتی ہے
 
 امید وصل بھی امجد ہے کانچ کی چوڑی
 کہ پہننے میں کئی بار ٹوٹ جاتی ہے
  
More Sad Poetry






