نظروں میں آنسوؤں کے کنارے بپھر گئے
دل میں جو بس رہے تھے وہ پیارے کدھر گئے
آنکھوں میں انتظار کے سپنے سجے رہے
میت کو دیکھ کر وہ ستارے بکھر گئے
نفرت کے تیز دھارے تو بہتے رہے مگر
شوق جنوں میں عشق کے مارے اتر گئے
دل میں خدا کا خوف و محبت لئے ہوئے
پم موت کے قریب سے ہنس کر گزر گئے
عاشق کی قبر کے جو لگے پھول سوکھنے
شبنم کے موتیوں سے دوبارہ نکھر گئے
عیاشیاں تو کم نہیں کرتے وہ کچھ زرا
پوچھو بجٹ کے ان سے خسارے کدھر گئے
روتا رہا جو عمر بھر بیٹوں کے عیب کو
مرنے کے بعد باپ کے سارے سدھر گئے
دامن تمہارے پیار کا اب چھوٹتا نہیں
تھامے رکھا ہے اسکو جہاں بھی اشہر گئے