کوئی جھونکا آیا اس دل میں حسرت الہامی کی طرح
اسی ہی تصور میں ہوگئے ایک گمنام آدمی کی طرح
خودی کو تسکین لیے سوچا کہ اطاعت کرلیں
ہر خوشی میں اضطراف پایا یوں تمثیل نیلامی کی طرح
نہ ہی وہ سب مقوی تھے کہ ہر منزل تلاش ہوتی
بے خبری میں ہاتھ پھیلے بھی ہر جگہ غلامی کی طرح
وہ تو امن میں خلل رہا حیراں ہوں پریشان بھی
سر جھکا کر چل دیئے ایک عشق بدنامی کی طرح
عجب ہوا آج سنتوشؔ کہ رشتوں کی پہچان مرچکی
بھٹکتا پھرتا ہوں اس دنیا میں اجڑی زندگانی کی طرح