کوئی حل نہ کوئی جواب ہے یہ سوال کیسا سوال ہے
جسے بُھول جانے کا حکم ہے اسے بھول جانا محال ہے
ہوئیں زرد پھُولوں کی بستیاں مگر اس میں خطا کہاں
تجھے لوگ دل سے دُعائیں دیں یہی تیرے فن کا کمال ہے
کبھی آسماں کی بلندیوں سے اُتر کے خاک پہ آئیں گے
ابھی پنچھیوں کو خبر نہیں یہ زمین والوں کا جال ہے
اسی نیم کے پیڑ کی اُوٹ میں ابھی چاند ہار کے سو گیا
تیرے پاک ہونٹوں کو چُوم لے یہ کہاں کسی کی مجال ہے
اسی ایک بسترِ بے حسی پہ تھکے تھکے سے بدن ہیں
تیرے ساتھ بھی وہی بے دلی یہ وصال کیسا وصال ہے