کوئی راہ دیکھے جَلا کر دئیے
گزر جائے کوئی بجھا کر دئیے
یہاں بھی ضرورت اُجالوں کی ہے
کہاں جا رہے ہو بجھا کر دئیے
مرے گھر میں جن سے رہے روشنی
دئیے وہ خدا نے عطا کر دئیے
سمندر کنارے مکاں ریت کے
عزیزوں نے مجھ کو بنا کر دئیے
شکستہ در و بام کی آنکھ ہیں
ہواؤں سے رکھنا بچا کر دئیے
بجھے چند ساتھی بھی مخلص ملے
مگر دشمنوں نے جدا کر دئیے
تمہاری جبیں کی جو معراج تھے
وہ سجدے بھی خادمُ قضا کر دئیے