کوئی سمجھے گا کیا راز گلشن
جب تک الجھے نہ کانٹوں سے دامن
یک بیک سامنے آ نہ جانا
رک نہ جائے کہیں دل کی دھڑکن
گل تو گل خار تک چن لیے ہیں
پھر بھی خالی ہے گلچیں کا دامن
کتنی آرائش آشیانہ
ٹوٹ جائے نہ شاخ نشیمن
عظمت آشیانہ بڑھا دی
برق کو دوست سمجھوں کہ دشمن
ان گلوں سے تو کانٹے ہی اچھے
جن سے ہوتی ہو توہین گلشن