کوئی موضوعِ گفتگو نہ رہا
تو ہی جب میرے روبرو نہ رہا
تب ملا ہے کہیں مزاج شناس
دل میں جب شوقِ جستجو نہ رہا
درد پتوں میں چھپ گیا ہے کہیں
ساز کوئی بھی ہو بہو نہ رہا
کرچیاں تو سمیٹ لیں میں نے
آئینہ میرے روبرو نہ رہا
تھک گئی ہیں سماعتیں بھی مری
اس کا لہجہ بھی مشک بُو نہ رہا
حسن اس کا بھی ڈھل گیا آخر
عشق میرا بھی تُند خو نہ رہا
گرد اتری مسافتوں کی مرادؔ
پہلے جیسا وہ خوبرو نہ رہا