کوئے مہرباں نہیں ہے کوئی چارہ گر نہیں ہے
میں کھڑا ہوں راہ میں یوں کوئے ہمسفر نہیں ہے
رہی منزلوں کی حسرت ، رہی آرزو چمن کی
کہیں راستوں کی ٹھوکر کہیں رہگزر نہیں ہے
مجھے شوق تو نہیں ہے کہ پھروں یہاں وہاں مین
مین غبار ہوں جہاں کا میرا کوئے گھر نہیں ہے
میں لپٹ کے رو چکا ہوں غم زیست سے کبھی کا
میرے آنسوؤں کو ڈھونڈو میری چشم تر نہین ہے
پھیلی ہوئے ہے ہر سو تاریکیوں کی چادر
اور شام زندگی کی کوئی سحر نہیں ہے
نہ گئیں تری جفائیں ، نہ ملیں تری وفائیں
جو مجھے قرار دے دے وہ تری نظر نہیں ہے
کڑی دھوپ کے سفر میں نہ ملے گا کوئی سایہ
تیرے راستے میں زاہد کوئی شجر نہیں ہے