لمحات ڈھل رہے ہیں کوئی پوچھتا نہیں
ارماں نکل رہے ہیں کوئی پوچھتا نہیں
تیری نگاہ ناز کے جلوؤں کی آگ سے
دیوانے جل رہے ہیں کوئی پوچھتا نہیں
زنداں میں ڈال کر وہ بھلا بیٹھے ہیں ہمیں
موسم بدل رہے ہیں کوئی پوچھتا نہیں
دیدار یار میں ملے سبقت کا بس شرف
ٹوٹے وہ پڑے ہیں کوئی پوچھتا نہیں
بیمار غم کو تو نے بلایا وہ آگئے
گرتے سنبھل رہے ہی کوئی پوچھتا نہیں
محفل میں ہم کو دیکھ کر ناراض ہوگئے
ہم اب بھی کھَل رہے ہیں کوئی پوچھتا نہیں
کل کے رئیس آج گدا بن گئے یہاں
ٹکڑوں پہ پل رہے ہیں کوئی پوچھتا نہیں
کانوں میں آج بھی وہی محسور جلترنگ
رس گھول سے رہے ہیں کوئی پوچھتا نہیں
رکھا ہے جن کو دل کی تہوں میں لپیٹ کر
جذبے مچل رہے ہیں کوئی پوچھتا نہیں
تیری وفاء کی راہ پر اشہر سے بے خبر
کانٹوں پہ چل رہے ہیں کوئی پوچھتا نہیں