کوئی پڑا ہے برسوں سے اِس کنارے
کوئی نہیں جو آکے اک بار پُکارے
دن کو روشن آفتاب دیکھتا ہے مجھے
رات کو انجمنِ چندہ و تارے
دیکھتی ہے ساری کائنات بے کسی میری
پر کیا کوئی میری حالت کو سنوارے
اک حصارِ یاد ہے میرے آس پاس
بچھڑے چہرے‘ رنگین خیال‘ گمشدہ سہارے
طوفانِ ماتم برپا ہے ہر روز یہاں
تڑپتے ہیں زارو قطار ارماں بے چارے
مجھے اندھا کر دیا اِ س نے خُدایا!
دِکھتے نہیں ہیں قدرت کے نظارے
میں تو بے بس ہوں محبت کے آگے
کوئی آکے میرا غلافِ محبت اُتارے
کھاتی جا رہی ہے ہمیں وابستگیء محبت
اور ہم کچھ نہ کر پائیں محبت کے مارے