کوئی چراغ نہیں، مگر اُجالا ہے
عجیب رات ہے، سو رج نکلنے والا ہے
غضب کی آگ ہے ایک بے لباس پتھر کا
پہاڑ پر تیری برسات کا دو شالہ ہے
عجب لہجہ ہے دشمنی کی مسکراہٹ کا
مجھے گرایا کہاں ہے مجھے سنبھلا ہے
نکل کے پاس کی مسجد سے ایک بچے نے
فساد میں جلی مورت پہ ہاتھ ڈالا ہے
تمام وادیوں ،صحرا میں آگ روشن ہے
مجھے خزاں کے انہی موسموں نے پالا ہے