کوئی کام صورت فرہاد کرنا ہے
ذات کو اپنی بر باد کرنا ہے
تجھے سر خرو کرنے کے لئے آخر
کچھ تو ہمیں ستم ایجاد کرنا ہے
کریں گے کیا ، جی کر اور
زندگی اپنی نذر صیاد کرنا ہے
سنگ اٹھائے ہیں دوستوں نے ایسے
سر اپنا مانند فولاد کرنا ہے
کوئی تو ایسا وجود ہو اے خدا
فدا اپنا دل ناشاد کرنا ہے
برگ و گل تو عدو ٹھرے بالیقیں
کانٹوں ہی سے ، اتحاد کرنا ہے
پیدا کر دو ساماں ایسے دوستوں
روح کو اپنی ، آزاد کرنا ہے
کہاں ہے زنجیر عدل اے امیر شہر
بیاں کچھ قصہء بےداد کرنا ہے
کوئی شخص تو ہونا چاہئے طاہر
ہمیں کسی پر اندھا اعتماد کرنا ہے