ستارے ٹمٹماتے ہیں تو کوئی یاد آتا ہے
نظارے جلملاتے ہیں تو کوئی یاد آتا ہے
اسے آنا نہیں واپس مگر ہم پھر بھی ہاتھ اپنے
دعا کو جب اٹھاتے ہیں تو کوئی یاد آتا ہے
کبھی جگنو کبھی تارے کبھی بادل کبھی غنچے
ہمارا دل جلاتے ہیں تو کوئی یاد آتا ہے
بہت کوشش کی ہے مگر اس ستمگر کو نہیں بھولے
کسی سے بھی آنکھ ملاتے ہیں تو کوئی یاد آتا ہے
ابھی بکھری ہے رستوں میں مہک اس کی رفاقت کی
کسی سے بھی ملنے جاتے ہیں تو کوئی یاد آتا ہے