کوئی یہاں سے اُٹھا ٗ وہاں چلا آیا
کوئی وہاں سے اُٹھا ٗ یہاں چلا آیا
کوئی پتہ دے اِس بے گھر کو بھی
نجانے کہاں سے اُٹھا ٗ کہاں چلا آیا
کانٹوں سے آراستہ ہوئیں اِسکی راہیں
جب بھی جہاں سے اُٹھا ٗ جہاں چلا آیا
اور پھر دیکھتی ہوں ہر چہرہ ہی زرد
ہر مسافر میری نظر کو پریشاں چلا آیا
جب بھی پڑھا کسی بھی پیشانی کو
تاریکیوں کا اُڑتا ہوا سماں چلا آیا
خامشی سے جس کی پسماندہ ہوا دل
اب کیسے مجھے پانے وہ بے زباں چلا آیا
میں آگے آگے اُس کی تلاش میں
اور وہ پیچھے پیچھے ناداں چلا آیا
نہ مَیں اُس کو ملوں ٗ نہ وہ مجھے
یہ کیسا میرے رب امتحاں چلا آیا