اُن راہوں پر ہمیشہ میں جس کے ساتھ چلتا تھا
آج اُن راہوں پر اپنی تنہائیوں کے ساتھ چلتا ہوں
کون کہتا ہے میں اکیلا ہوں
کیا بتاوں آج اگر وہ میرے پاس نہیں ہے تو کیا ہوا
اُن کی یادوں کے ساتھ جو میں ہمیشہ چلتا ہوں
کون کہتا ہے میں اکیلا ہوں
میں آج بھی اُس کو ڈھُنڈنے ہر رات کو نکلتا ہوں
میں آج بھی اُس کا وہیں پر روز انتظار کرتا ہوں
کون کہتا ہے میں اکیلا ہوں
مگر اُس کے انتظار میں وقت سے باتیں کرتا ہوں
کبھی سنسان گلیوں میں میں جا کر اکثر روتا ہوں
کون کہتا ہے میں اکیلا ہوں
میرے آنسو پونچھتے تھے یہی باتیں سوچتا ہوں
میرے خیالوں میرے دل میرے ہر ایک پَل میں وہ ہے
کون کہتا ہے میں اکیلا ہوں