آج کل سچ پوچھیے تو مسکراتا کون ہے
خود فریبی ہے فقط، ہنستا ہنساتا کون ہے
میری نیندیں اُڑ گئی ہیں یہ تو کہہ سکتا ہوں میں
یہ مگر مت پوچھئے نیندیں اُڑاتا کون ہے
تم نہیں آتے نہ آؤ، تم سے شکوہ بھی نہیں
تم سے کہتا کون ہے، تم کوُ بلاتا کون ہے
تم نہیں سُنتے اگر افسانہ غم، مت سنو
ہر کس و ناکس کو افسانہ سُناتا کون ہے
اس سے پہلے بھی کیا ہے ہم نے اُن کا اعتبار
ایسے وعدے تو بہت ہوتے ہیں آتا کون ہے
اُن کی محفل دیکھنے کا شوق تو ہم کو بھی ہے
ہم وہاں جاتے، مگر ہم کو بُلاتا کون ہے
فتنہ ہائے دہر کے اقبال شاکی ہیں سبھی
اِن سے یہ پوچھے کوئی فتنے جگاتا کون ہے