کِسی اصوُل وفا پہ جو کار بند نہیں
جہانِ عشق میں اِتنا بھی سر بلند نہیں
ہم اپنے دِل میں کوئی زہر بھی نہیں رکھتے
ہماری باتوں میں شامل اگرچہ قند نہیں
بنا لڑے ہی چلو جنگ ہار جاتے ہیں
مِری سپاہ کے اب حاصلے بلند نہیں
میں اپنی مٹھی میں بھر لاؤں چاند تاروں کو
اب اس قدر بھی تو اونچی مِری کمند نہیں
اُسے خدا کِسی نعمت سے کیا نوازے گا
جو شخص اپنے خدا کا نیاز مند نہیں
فریب کھالوں کسی سے قبول ہے مجھ کو
فریب دینا کِسی کو مجھے پسند نہیں
ملی ہیں زینہ بہ زینہ ہی منزلیں ہم کو
وہاں سے لے کے یہاں تک یہ اِک زقند نہیں
تو کیا ہوا جو ہوُا بند ایک در عذراؔ
ہر ایک در تو زمانے کا تجھ پہ بند نہیں