کچھ اس طرح سے ترِا دِل جفا نے پھیرا ہے
مرِے لیۓ تو اُجالا بھی اب اندھیرا ہے
چلے گۓ ہو تو اب لوٹ کر بھی مت آنا
کہ میرے گھر میں سیاہ موسموں کا ڈیرا ہے
خزایںٔ صحن میں پھرتی ہیں دندناتی ہویٔ
مرا وجود عجب آندھیوں نے گھیرا ہے
میں خوش دلی سے نہ کیوں کر خزاں قبول کروں
کہ حق بہار کی تتلی پہ صرف تیرا ہے
چلے بھی آؤ کہ ساون کی سانولی رُت نے
برنگِ موجِ صبا اِک فسوں بکھیرا ہے
اے کاش آ نکھ نہ کھلتی مری کبھی عذراؔ
شبِ سیاہ سے بڑھ کر مرِا سویرا ہے