کچھ ان کی اداوں کا طبگار بہت تھا
کچھ اپنے آنسوؤں سے مجھے پیار بہت تھا
سوچا تھا پا لیں گے اسے ایک نہ ایک دن
پہلے سی ہی محبت پہ اعتبار بہت تھا
منزل کیسے نصیب ہو تیرے پیار کی
راستہ جو تیرے گھر کا پراسرار بہت تھا
اس نے کچھ اس انداز میں اظہار کیا تھا
اقرار کم اقرار میں انکار بہت تھا
مسعود کو فقط پیار میں رسوائیاں ملیں
شاہد کہ محبت کا گناہگار بہت تھا