کچھ ایسی اُلجھنیں ہوتی ہیں جِن کا حل نہیں ہوتا
کرو کوشش جو سلجھانے کی ، کچھ حاصل نہیں ہوتا
نہ دیں کچھ بھی بھلے لیکن گھنی چھاؤں تو دیتے ہیں
کچھ ایسے بھی شجر ہوتے ہیں جِن پہ پھل نہیں ہوتا
بنیںُ گے شکل کیا ، خوابوں کے رنگیں ریشمی دھاگے
تصور جب تلک انسان کا کامل نہیں ہوتا
جو کر دے فرد کو غافل سبھی اپنے فرایض سے
کچھ ایسا پرُ کشش بھی جسم کا صندل نہیں ہوتا
بھٹک جاتے ہیں اکثر زیست کی تاریک راہوں میں
وہ جِن کے سر پہ شفقت کا کویٔ آ نچل نہیں ہوتا
دھنسو تو اس میں دھنستے ہی چلے جاؤ گے ہر لمحہ
بھلا تم ہی بتا دو پیار کیا دلدل نہیں ہوتا ؟
لگا دے آگ اپنے گھر کو خود اپنے ہی ہاتھوں سے
کویٔ بھی شخص عذراؔ اِس قدر پاگل نہیں ہوتا