کچھ ایسے میں گزارتا رہا زندگی
کہ ہر آن تجھے پکارتا رہا زندگی
یہ سانسیں اُسی ذات کی مرہون ہیں
بس یہی سوچ کر میں سنوارتا رہا زندگی
میں جانتا تھا کہ اُسے شغف ہے پھولوں سے
اسی لیے میں ہر زخم نکھارتا رہا زندگی
پتھروں کے شہر میں کوئی ٹھیس نہ پنہچے اسے
میں ہر سنگ کو سینے پر ٹالتا رہا زندگی
قربت کے لمحے بھی شاید ملے ہوں کبھی
میں تو ہجر کے لمحوں کو نکالتا رہا زندگی
میری جاں میں بسی ہے جاں اُس کی وصل
اور میں فقط اُس کی خاطر سنبھالتا رہا زندگی