کچھ بھی نہیں رہا ہے عہد وفا کہ تھا
Poet: ضرار By: ضرار, Sargodhaکچھ بھی نہیں رہا ہے عہد وفا کہ تھا
 دلی جو شہر دل تھا جو کچھ بھی تھا کہ تھا
 
 ثابت نہیں کسی سے اک زاویہ کہ تھا
 ثابت کی ہر کمی سے ثابت ہوا کہ تھا
 
 سب کو ملا مسیحا سب سے نہیں ملا
 کچھ کا تڑپ کے مرنا اک فیصلہ کہ تھا
 
 جب بھی وہی خدا تھا اب بھی وہی خدا
 اک تھا خدا نہیں تھا اک ہے خدا کہ تھا
 
 جاتے ہیں سب فلک کو آئے فلک سے کچھ
 اک سلسلہ ہے جاری اک سلسلہ کہ تھا
 
 آنکھیں بھی رقص میں تھیں رومی بھی رقص میں
 بس رقص رہ گیا ہے اک فلسفہ کہ تھا
 
 تیرا سراب چہرہ صحرائے وقت میں
 لگتا رہا نہیں ہے دکھتا رہا کہ تھا
 
 مدھم سی روشنی تھی ہلکا سا چاند تھا
 دل کو سکون عامرؔ آنسو بہا کہ تھا
More Sad Poetry






