کچھ تو جینے کا سامان ہو جائے
وہ روح با روح آئے اور میرا غلام ہو جائے
کھول کر بیٹھی ہوں دل کا دروازہ مددت سے
کہ اب کی بار تو وہ میرے دل کا مہمان ہو جائے
غیر تو غیر - دوستوں نے بھی دے دیا دغا
وقت گزانے کے لیے چلو کچھ ارشاد ہو جائے
یہ رات کے پل - تنہا پل کیسے گزارتے ہو ؟
میرے سنسان کمرے میں بھی خوشی کا سماء ہو جائے
وہ ویسا نہیں نکلا جیسا میں کہتی تھی سب کو
کاش کے اب دل ناتے سننے کو تیار ہو جائے
قسمت کتنا مجبور بنا دیتی ہیں انسان کو
کوئی تقدیر کے ہاتھوں بھی نا خوار ہو جائے
میں ُاسے منانے تو جا رہی ہوں لیکن
ڈر ہے کہیں میرا ذہین پہلے ہی نا بدگمان ہو جائے