کھول دو آج لبوں کی زنجیر
مجھ سے کچھ تو کہو میرے دلگیر
کیوں لبوں پر سکوت طاری ہے
کس لئے آج یہ بیزاری ہے
میری جاں کیسی یہ کمی ٹھہری
تیری آنکھوں میں کیوں نمی ٹھہری
میری فطرت کو بھانپ کر کہہ دو
میری آنکھوں میں جھانک کر کہہ دو
مجھ پہ ایسا کبھی تو مان کرو
میری ہستی پہ یہ احسان کرو
مجھے اپنا میرے دم ساز کرو
مجھے اپنا کبھی ہمراز کرو
میرے آگے کبھی یہ لب کھولو
میری کہی سے پہلے تم بولو
کھول دو آج لبوں کی زنجیر
مجھ سے کچھ تو کہو میرے دلگیر