کچھ درد بھی ایسا کچھ میں بھی ایسا ہوں
کچھ ستم بھی ایسا کچھ میں بھی ایسا ہوں
میرے حال پہ ہسنے والے اپنی بھی خبر دے
تجھے بھی ہے ملال کہ بس میں ہی ایسا ہوں
پہلے آتش کی نظر ہوئے پھر خود کو مِٹا دیا
عشقِ زَن میں دیکھو میں پاگل کیسا ہوں
تم تو بدل گئے وقت کی نزاکت میں ڈھل کر
نہ منزل نہ ٹھکانہ میں مسافر کیسا ہوں
کبھی یاد تو آتی ہوگئ میری دیوانگی تم کو
تیرے خیالوں میں بٹکا ہوا میں کیسا ہوں
تنگ ہیں راستے ہیں تنگ قلب لوگ تیرے شہر نفیس
حیران ہوں رَہ کرتیرے درمیاں میں شخص کیسا ہوں