کچھ عشق تھا کچھ مجبوری تھی سو میں نے جیون وار دیا
Poet: فیصل By: فیصل, Sialkotکچھ عشق تھا کچھ مجبوری تھی سو میں نے جیون وار دیا
 میں کیسا زندہ آدمی تھا اک شخص نے مجھ کو مار دیا
 
 اک سبز شاخ گلاب کی تھا اک دنیا اپنے خواب کی تھا
 وہ ایک بہار جو آئی نہیں اس کے لیے سب کچھ ہار دیا
 
 یہ سجا سجایا گھر ساتھی مری ذات نہیں مرا حال نہیں
 اے کاش کبھی تم جان سکو جو اس سکھ نے آزار دیا
 
 میں کھلی ہوئی اک سچائی مجھے جاننے والے جانتے ہیں
 میں نے کن لوگوں سے نفرت کی اور کن لوگوں کو پیار دیا
 
 وہ عشق بہت مشکل تھا مگر آسان نہ تھا یوں جینا بھی
 اس عشق نے زندہ رہنے کا مجھے ظرف دیا پندار دیا
 
 میں روتا ہوں اور آسمان سے تارے ٹوٹتے دیکھتا ہوں
 ان لوگوں پر جن لوگوں نے مرے لوگوں کو آزار دیا
 
 وہ یار ہوں یا محبوب مرے یا کبھی کبھی ملنے والے
 اک لذت سب کے ملنے میں وہ زخم دیا یا پیار دیا
 
 مرے بچوں کو اللہ رکھے ان تازہ ہوا کے جھونکوں نے
 میں خشک پیڑ خزاں کا تھا مجھے کیسا برگ و بار دیا






