باتوں ہی باتوں میں بات نکل جاتی ہے
نجانے تیرے بن کیسے یہ رات نکل جاتی ہے
دل تو دھڑکتا ہے کام ہے اُس کا
نجانے تیرے بن کیسے یہ سانس نکل جاتی ہے
کچھ لمحے یاد گار ہوتے ہیں ذندگی میں
نجانے کیسے لمحوں ہی لمحوں ذندگی کی ہر دھار نکل جاتی ہے
جن کی کمی کو ہر پل محسوس کرتا ہوں میں
نجانے کیسے یہ بات دل کے آر پار نکل جاتی ہے
جس درد کو چھپاۓ جیتا رہا میں آج تک
نجانے کیسے یہ میرے قلم سے ہر بات نکل جاتی ہے
پھر بھی جیتا ہے یہ دل آج بھی ان حسرتوں کے لیے
نجانے کیسے اس دل سے ہر بات نکل جاتی ہے