جنہیں کبھی
پڑھا ہی نا تھا
جنہیں کبھی
دیکھا ہی نا تھا
جو تھے میرے پاس
برسوں سے
مگر مجھے
ان کا علم ہی نا تھا
آج کچھ
پرانے خط مل گئے تھے
جب ُان پے دیکھا تیرا نام
تو خوشی سے
میرے آنسو نکل گئے تھے
ًمیں کیئ دن کے بعد مسکرایا تھا
وہ تیرا نام دیکھ کر
میرا دل پھر سے
کھل کھلایا تھا
جب خط پڑھنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو
نا ُان تحریروں میں محبت تھی
اور نا ہی کوئ پیار تھا
ُان تحریروں سے
صاف جھلک رہا تھا
جیسے ُاسے کسی
اور کا انتظار تھا
میں پھر سے
اک ستارے کی طرح
فلک سے گر گیا
خط پڑھتے پڑھتے ہی
خشبوں کی طرح بکھر گیا
میں دنیا کے سوالوں سے نہیں
بلکہ اپنے سائے سے ہی ڈر گیا تھا
کہ کیا تھے خواب میرے
میں ان ادھورے خوابوں کی
تعبیر سے ڈر گیا تھا
میں ُاس پل نجانے اندر ہی اندر
کتنی بار مر گیا تھا