کڑکتی دھوپ میں سلگتی چھاؤں جیسا ہے
میرا محبوب کسی کی بددعاؤں جیسا ہے
ان اندھروں میں کانپ اٹھتی ہے مدھم لو
جلتے چراغوں میں وہ تیز ہواؤں جیسا ہے
اس کو پانے کی چاہ تو کب سے ھے مگر
ساتھ اس کا بکھرتی تمناؤں جیسا ہے
ہر العظام اس کا سہہ تو جاؤں مگر
وہ کسی بے گناہ کی سزاؤں جیسا ہے
صیاد کی قید پہ تڑپ کر پھڑپھڑائے جو
پنجرے میں وہ پنچھی کی صداؤن جیسا ہے
یوں لگتا ہے صرف میرا ہے وہ مگر
ظالم کا ہر روپ بے وفاؤں جیسا ہے