کھلے پھول تو بہار دکھلا گئے
درد صدیوں کے سوئی جگا گئے
چھپا رکھے تھے جو زمانے سے
نکلے آنسو تو پردہ اٹھا گئے
کہا ، کچھ تو فرمائیے حضور
مسکرائے اور غزل میری سنا گئے
سایہ بھی ساتھ چھوڑ گیا اپنا
جہاں بھی گئے ہم تنہا گئے
نکلے جب بھی ، محفل یار سے
لئے ساتھ اپنے ، آہ و بکا گئے
جیسے بھی ہو سکا ، ہم سے
مرتے مرتے بھی وعدہ نبھا گئے
وقت رخصت ہی مل جائے طاہر
کرتے دنیا سے یہی دعا گئے