کھوٹے سکے نہ ہوں گے اب مطلوب
چاہے جتنا کرو ہمیں معتوب
مجھ پہ احساں ہے میر ے یاروں کا
کرچی کرچی کیا میرا دل خوب
کوئی بھی قول کا نہیں راسخ
اب تصنع ہے ہر طرف مرغوب
بھر کے پوٹے چلے گئے پنچھی
گریہ کر اب اکیلے پن میں خوب
نام جس کا رہا تھا ورد زباں
بھول بیٹھا ہے تجھ کو وہ محبوب
وقت مفلس ٹلے گا بالآخر
نان شیریں نصیب ہو گا خوب
پل گئے مال کھا کے رشوت کا
جاہ و منصب سے جو ہوئے منسوب
زر کی خاطر جو آن بیچتا ہے
ذلتوں کا بنے گا وہ آشوب