کیا کہوں، کیسے بتائی ہے جوانی اپنی؟
مختصر یہ ہے کہ لمبی ہے کہانی اپنی
اب تو سانسوں میں رکاوٹ سی نظر آتی ہے
کھو چکا ہوں تری الفت میں روانی اپنی
کہہ تو بیٹھا تھا کہ اب بھول ہی جاؤں گا اسے
بات مشکل نظر آتی ہے نبھانی اپنی
میری تربت کو بھی یا رب کوئی مسمار کرے
میں نہ چاہوں گا پس مرگ نشانی اپنی
اب تو یہ عالم تنہائی ہے اے جان غزل
خود کو بٹھلا کے سناتا ہوں کہانی اپنی