کہاں جائیں ہم آخر الزام کے مارے
دربدر پھرتے ہیں اُسکے نام کے مارے
اُس سے چُھٹ گئی ہے مگر گزر رہی ہے
گئ گزری محبت کے احترام کے مارے
اور ہم جی رہے ہیں ٹھوکریں کھائے
اِک گستاخ گھنی گھلونی شام کے مارے
فرصت میں غرق ہو جاتے ہیں ماضی میں
حیاتِ ناکام ٗ کوششِ ناکام کے مارے
روگ ساری عمر کا لے بیٹھے ہم دیوانے
دو بول اُس گلاب سے کلام کے مارے
کبھی سوچوں کُھل کے جینا سیکھ لوں
کبھی سوچوں موت لے لوں آرام کے مارے