بات محبت کی تھی شرطِ وفا کہاں سے لائے
دشت میں بتاؤ تو تم گھٹا کہاں سے لائے
مقروضِ وقت ہوں کہ جی رہا ہوں ابتک
زیست کرنے کا ہنر فقط ہَوا کہاں سے لائے
یہ بھی خوب رہی کہتے ہو ڈھونڈ لاؤ کہیں سے
جو ہو تجھ جیسا اُسے مجھ ایسا کہاں سے لائے
نہ پوچھ اِس شہرِ تنگ دل میں ہم ایسے تہی داماں
مرنے کا ہنر جینے کا حوصلہ کہاں سے لائے
تیرے بعد اُجڑ گئی اے میرے رفیق حیات
وہ بزم طرب دل تباہ ! کہاں سے لائے
بہہ گئے ہیں جو وقت کی روانی میں اُنیں واجدؔ
ڈھونڈنے نکلے بھی تو عمر گذشتہ کہاں سے لائے