کہاں لگا لیا دل کو جہاں گُزر ہی نہیں
اداس اُس کے لیے ہوں جسے خبر ہی نہیں
بس ایک بار مِلا تھا پلک جھپکنے کو
پھر اس کے بعد کہاں ہوں، مجھے خبر ہی نہیں
کِسے وفا کے عوض ایک پَل کا چَین مِلا
یہ وہ درخت ہے جس میں کوئی ثمر ہی نہیں
مَیں دل کا ساز لیے پھر رہا ہوں کس کے لیے
یہ شہر وہ ہے کہ جس میں کوئی بَشر ہی نہیں
دکھا رہا ہے مسلسل جو خواب منزل کے
یہ شخص وہ ہے کہ میرا ہمسفر ہی نہیں
قدم جمائے رہو اور دل کڑا رکھو
یہ راہ وہ ہے کہ جس میں کوئی شجر ہی نہیں
دئیے جَلا کے رکھو، جاگتے رہو شہرت
یہ رات وہ ہے کہ جس کی کوئی سحر ہی نہیں